3

احساس

تم مجھے عوام میں کیوں نھیں جانے دیتے، میں آج بھی مقبول ہوں، لوگ مجھے پسند کرتے ہیں، تمھاری حکومت میری مقبولیت سے ڈرتی ہے اس لیے مجہے عوام سے دور رکھتی ہے یہ میرے اور پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ وہ ہر پیشی پر یہی کہتا۔
حکومت نے کچھ سوچ کر ہی آ پ کو حفاظتی تحویل میں رکھا ہے، اور میری زمہ داری ہے کہ آپ کو ہر پیشی پر حفاظت سے کمیشن تک پہنچا وں اور پھر واپس ریسٹ ہاوس تک میں کوی رسک نہیں لے سکتا۔ اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا۔ جبکہ میرا دل چاہتا کہ میں اسے ایک مرتبہ عوام کے درمیان ضرور لے جاوں لیکن نوکری جانے سے ڈرتا تھا۔
ایک دن جب واپسی میں اس نے پھر یہی ضد پکڑلی تو میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور میں نے ڈرایونگ خود منبھال لی آور ڈرایور کو برابر میں بیٹھالیا، وہ پیچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں نے گاڑی کا رخ راجہ بازار کی طرف موڑ لیا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
گاڑی جب بازار میں داخل ہوی تو وہ بہت خوش ہوا اور بے ساختہ لوگوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگا ، میں نے بھی گاڑی سلو کر لی، وہ شیشہ اتارنے لگا ۔ میں نے اسے منع کیا ۔ اتنے میں باہر لوگوں نے اسے پہچاننا شروع کردیا ۔ اب باہر شور ہونا شروع ھو گیا اور لوگ ہاتھوں سے اشارے کرنے لگے۔ وہ خوش ہوگیا اور کہنے لگا، دیکھا میں کیا کہتا تھا لوگ مجھے آج بھی پسند کرتے ہیں اور تمھاری حکومت نے میری مقبولیت کے ڈر سے مجھے قید کر رکھا ہے۔
میں خاموش رہا اور گاڑی کی رفتار سلو رکھی۔ باہر لوگوں کا شور بڑھتا جا رہا تھا، اب لوگوں نے اس کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے، مگر وہ اب بھی صورتحال نہ سمجھا، لیکن جب لوگوں نے گاڑی کے شیشوں پر ہاتھ مارنے شروع کردیے تو وہ پریشان نظر آنے لگا۔ اب کچھ لوگ اسے لعنت دکھا رھے تھے اور کچھ نے چپلیں اتار کر دیکھانی شروع کر دیں تھی۔ گاڑی تیز چلاو، وہ چلایا ، میں نے بیک مرر سے اسے دیکھا، اس کی حالت بری تھی ماتھے پر پسینا تھا اور وہ کھڑکی سے دور ہو کر بیٹھ گیا تھا، مگر میں نے گاڑی کی رفتار تیز نہ کی، مجھے اس کی حالت دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی۔ گاڑی تیز چلاوء وہ پھر چلایا۔ تم مجھے مارنا چاھتے ہو۔ میں نے بیک مرر سے دیکھا اس کی حالت بہت خراب تھی، لہذا میں نے گاڑی کی رفتار تیز کی اور اسے ریسٹ ہاوس لیجاکر چھوڑا۔ لیکن اس واقعے کے بعد اس نے پھر کبھی اپنی مقبولیت کی بات نہ کی بلکہ حکومت سے درخواست کی کا اسے آیندہ ہیلی کاپٹر میں لے جایا جاے۔
یہ واقع سابق آی جی پنجاب سردار محمد چوھدری (ریٹایرڈ) نے اپنی آپ بیتی میں درج کیا ھے، جن کو سقوط ڈھاکہ کے بعد یحیی خان کو سہالہ ریسٹ ہاوس سے حمودوالرحمان کمیشن کے سامنے ہر پیشی پر لانے اور لیجانے کی زمہ داری دی گی تھی۔ جی ہاں آپ سہی سمجھے یہ صاحب جنہیں آپنی عوامی مقبولیت کا یقین تھا یحیی خان صاحب تھے۔
مجھے یہ واقع مشرف صاحب کے حا لیہ دورہ یورپ کے دورآن دیے گے اس بیان پر یاد آیا، جس میں انہوں نے یہ دعوا کیا تھا کہ وہ آج بھی عوام میں مقبول ہیں اور عوام انھیں پسند کرتے ھیں اور یہ کہ انہیں جیسے ہی احساس ہو گا کہ اب وہ عوام میں مقبول نہیں رہے وہ عہدہ چھوڑ دینگے، یہ احساس انہیں کس طرح ہوگا یہ وہ سمجہھا نھیں سکے۔
پہلے میں بھی نہیں سمجھ سکا تھا، لیکن جیسے ہی یہ واقع یاد آیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ موروثی بیماری ہے جو ہر آمر میں منتقل ہو
جاتی ہے۔ اور اس کابہترین علاج راجہ بازار کا تنہا چکر لگوانا ہی ہوسکتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے لگوایا جاے مشرف صاحب سے راجہ بازار کا چکر تاکہ انہیں آپنی مقبولیت کا بہتراحساس ہوسکے۔

Powered by Blogger.